ورنہ کوئی کب گالیاں دیتا ہے کسی کو
یہ اس کا کرم ہے کہ تجھے یاد رہا میں
عباس تابش
یہ موج موج بنی کس کی شکل سی تابشؔ
یہ کون ڈوب کے بھی لہر لہر پھیل گیا
عباس تابش
یہ محبت کی کہانی نہیں مرتی لیکن
لوگ کردار نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
عباس تابش
یہ تو اب عشق میں جی لگنے لگا ہے کچھ کچھ
اس طرف پہلے پہل گھیر کے لایا گیا میں
عباس تابش
یہ زمیں تو ہے کسی کاغذی کشتی جیسی
بیٹھ جاتا ہوں اگر بار نہ سمجھا جائے
عباس تابش
آئی ہوا نہ راس جو سایوں کے شہر کی
ہم ذات کی قدیم گپھاؤں میں کھو گئے
عبد الاحد ساز
اب آ کے قلم کے پہلو میں سو جاتی ہیں بے کیفی سے
مصرعوں کی شوخ حسینائیں سو بار جو روٹھتی منتی تھیں
عبد الاحد ساز