EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

ورنہ کوئی کب گالیاں دیتا ہے کسی کو
یہ اس کا کرم ہے کہ تجھے یاد رہا میں

عباس تابش




یہ موج موج بنی کس کی شکل سی تابشؔ
یہ کون ڈوب کے بھی لہر لہر پھیل گیا

عباس تابش




یہ محبت کی کہانی نہیں مرتی لیکن
لوگ کردار نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں

عباس تابش




یہ تو اب عشق میں جی لگنے لگا ہے کچھ کچھ
اس طرف پہلے پہل گھیر کے لایا گیا میں

عباس تابش




یہ زمیں تو ہے کسی کاغذی کشتی جیسی
بیٹھ جاتا ہوں اگر بار نہ سمجھا جائے

عباس تابش




آئی ہوا نہ راس جو سایوں کے شہر کی
ہم ذات کی قدیم گپھاؤں میں کھو گئے

عبد الاحد ساز




اب آ کے قلم کے پہلو میں سو جاتی ہیں بے کیفی سے
مصرعوں کی شوخ حسینائیں سو بار جو روٹھتی منتی تھیں

عبد الاحد ساز