تیرے لیے سب چھوڑ کے تیرا نہ رہا میں
دنیا بھی گئی عشق میں تجھ سے بھی گیا میں
اک سوچ میں گم ہوں تری دیوار سے لگ کر
منزل پہ پہنچ کر بھی ٹھکانے نہ لگا میں
ورنہ کوئی کب گالیاں دیتا ہے کسی کو
یہ اس کا کرم ہے کہ تجھے یاد رہا میں
میں تیز ہوا میں بھی بگولے کی طرح تھا
آیا تھا مجھے طیش مگر جھوم اٹھا میں
اس درجہ مجھے کھوکھلا کر رکھا تھا غم نے
لگتا تھا گیا اب کے گیا اب کے گیا میں
یہ دیکھ مرا ہاتھ مرے خون سے تر ہے
خوش ہو کہ ترا مد مقابل نہ رہا میں
اک دھوکے میں دنیا نے مری رائے طلب کی
کہتے تھے کہ پتھر ہوں مگر بول پڑا میں
اب طیش میں آتے ہی پکڑ لیتا ہوں پاؤں
اس عشق سے پہلے کبھی ایسا تو نہ تھا میں
غزل
تیرے لیے سب چھوڑ کے تیرا نہ رہا میں
عباس تابش