EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

نہال درد یہ دن تجھ پہ کیوں اترتا نہیں
یہ نیل کنٹھ کہیں تجھ سے بد گماں ہی نہ ہو

عباس تابش




پہلے تو ہم چھان آئے خاک سارے شہر کی
تب کہیں جا کر کھلا اس کا مکاں ہے سامنے

عباس تابش




پس غبار بھی اڑتا غبار اپنا تھا
ترے بہانے ہمیں انتظار اپنا تھا

عباس تابش




پھر اس کے بعد یہ بازار دل نہیں لگنا
خرید لیجئے صاحب غلام آخری ہے

عباس تابش




رات کمرے میں نہ تھا میرے علاوہ کوئی
میں نے اس خوف سے خنجر نہ سرہانے رکھا

عباس تابش




رات کو جب یاد آئے تیری خوشبوئے قبا
تیرے قصے چھیڑتے ہیں رات کی رانی سے ہم

عباس تابش




شب کی شب کوئی نہ شرمندۂ رخصت ٹھہرے
جانے والوں کے لیے شمعیں بجھا دی جائیں

عباس تابش