اتنا آساں نہیں مسند پہ بٹھایا گیا میں
شہر تہمت تری گلیوں میں پھرایا گیا میں
میرے ہونے سے یہاں آئی ہے پانی کی بہار
شاخ گریہ تھا سر دشت لگایا گیا میں
یہ تو اب عشق میں جی لگنے لگا ہے کچھ کچھ
اس طرف پہلے پہل گھیر کے لایا گیا میں
خوب اتنا تھا کہ دیوار پکڑ کر نکلا
اس سے ملنے کے لیے صورت سایہ گیا میں
تجھ سے کچھ کہنے کی ہمت ہی نہیں تھی ورنہ
ایک مدت تری دہلیز تک آیا گیا میں
خلوت خاص میں بلوانے سے پہلے تابشؔ
عام لوگوں میں بہت دیر بٹھایا گیا میں
غزل
اتنا آساں نہیں مسند پہ بٹھایا گیا میں
عباس تابش