سن رہا ہوں ابھی تک میں اپنی ہی آواز کی بازگشت
یعنی اس دشت میں زور سے بولنا بھی اکارت گیا
عباس تابش
تیری روح میں سناٹا ہے اور مری آواز میں چپ
تو اپنے انداز میں چپ ہے میں اپنے انداز میں چپ
عباس تابش
طلسم خواب سے میرا بدن پتھر نہیں ہوتا
مری جب آنکھ کھلتی ہے میں بستر پر نہیں ہوتا
عباس تابش
تری محبت میں گمرہی کا عجب نشہ تھا
کہ تجھ تک آتے ہوئے خدا تک پہنچ گئے ہیں
عباس تابش
تو بھی اے شخص کہاں تک مجھے برداشت کرے
بار بار ایک ہی چہرہ نہیں دیکھا جاتا
عباس تابش
ان آنکھوں میں کودنے والو تم کو اتنا دھیان رہے
وہ جھیلیں پایاب ہیں لیکن ان کی تہہ پتھریلی ہے
عباس تابش
وقت لفظوں سے بنائی ہوئی چادر جیسا
اوڑھ لیتا ہوں تو سب خواب ہنر لگتا ہے
عباس تابش