یہ کس کے خوف کا گلیوں میں زہر پھیل گیا
کہ ایک نعش کے مانند شہر پھیل گیا
نہیں گرفت میں تا حد خاک کا منظر
سمٹ گئیں مری بانہیں کہ دہر پھیل گیا
تجھے قریب سمجھتے تھے گھر میں بیٹھے ہوئے
تری تلاش میں نکلے تو شہر پھیل گیا
میں جس طرف بھی چلا جاؤں جان سے جاؤں
بچھڑ کے تجھ سے تو لگتا ہے دہر پھیل گیا
مکاں مکان سے نکلا کہ جیسے بات سے بات
مثال قصۂ ہجراں یہ شہر پھیل گیا
بچا نہ کوئی تری دھوپ کی تمازت سے
ترا جمال بہ انداز قہر پھیل گیا
یہ موج موج بنی کس کی شکل سی تابشؔ
یہ کون ڈوب کے بھی لہر لہر پھیل گیا
غزل
یہ کس کے خوف کا گلیوں میں زہر پھیل گیا
عباس تابش