EN हिंदी
یہ کس کے خوف کا گلیوں میں زہر پھیل گیا | شیح شیری
ye kis ke KHauf ka galiyon mein zahr phail gaya

غزل

یہ کس کے خوف کا گلیوں میں زہر پھیل گیا

عباس تابش

;

یہ کس کے خوف کا گلیوں میں زہر پھیل گیا
کہ ایک نعش کے مانند شہر پھیل گیا

نہیں گرفت میں تا حد خاک کا منظر
سمٹ گئیں مری بانہیں کہ دہر پھیل گیا

تجھے قریب سمجھتے تھے گھر میں بیٹھے ہوئے
تری تلاش میں نکلے تو شہر پھیل گیا

میں جس طرف بھی چلا جاؤں جان سے جاؤں
بچھڑ کے تجھ سے تو لگتا ہے دہر پھیل گیا

مکاں مکان سے نکلا کہ جیسے بات سے بات
مثال قصۂ ہجراں یہ شہر پھیل گیا

بچا نہ کوئی تری دھوپ کی تمازت سے
ترا جمال بہ انداز قہر پھیل گیا

یہ موج موج بنی کس کی شکل سی تابشؔ
یہ کون ڈوب کے بھی لہر لہر پھیل گیا