گھر والے مجھے گھر پر دیکھ کے خوش ہیں اور وہ کیا جانیں
میں نے اپنا گھر اپنے مسکن سے الگ کر رکھا ہے
عبد الاحد ساز
جیسے کوئی دائرہ تکمیل پر ہے
ان دنوں مجھ پر گزشتہ کا اثر ہے
عبد الاحد ساز
جیتنے معرکۂ دل وہ لگاتار گیا
جس گھڑی فتح کا اعلان ہوا ہار گیا
عبد الاحد ساز
جن کو خود جا کے چھوڑ آئے قبروں میں ہم
ان سے رستے میں مڈبھیڑ ہوتی رہی
عبد الاحد ساز
خبر کے موڑ پہ سنگ نشاں تھی بے خبری
ٹھکانے آئے مرے ہوش یا ٹھکانے لگے
عبد الاحد ساز
خرد کی رہ جو چلا میں تو دل نے مجھ سے کہا
عزیز من ''بہ سلامت روی و باز آئی''
عبد الاحد ساز
لا سے لا کا سفر تھا تو پھر کس لیے
ہر خم راہ سے جاں الجھتی رہی
عبد الاحد ساز