بکھر کے چھوٹ نہ جاؤں تری گرفت سے میں
سنبھال کر مجھے اے موج خوش ادا لے جا
علیم اللہ حالی
ایک آواز نے توڑی ہے خموشی میری
ڈھونڈھتا ہوں تو پس ساحل شب کچھ بھی نہیں
علیم اللہ حالی
کوئی پتھر کا نشاں رکھ کے جدا ہوں ہم تم
جانے یہ پیڑ کس آندھی میں اکھڑ جائے گا
علیم اللہ حالی
صداؤں کے جنگل میں وہ خامشی ہے
کہ میں نے ہر آواز تیری سنی ہے
علیم اللہ حالی
میرا وجود جذب ہوا تیرے جسم میں
اب مجھ کو اپنے جسم کے اندر تلاش کر
علی الدین نوید
آئین جواں مرداں حق گوئی و بیباکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
علامہ اقبال
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
علامہ اقبال