EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

بکھر کے چھوٹ نہ جاؤں تری گرفت سے میں
سنبھال کر مجھے اے موج خوش ادا لے جا

علیم اللہ حالی




ایک آواز نے توڑی ہے خموشی میری
ڈھونڈھتا ہوں تو پس ساحل شب کچھ بھی نہیں

علیم اللہ حالی




کوئی پتھر کا نشاں رکھ کے جدا ہوں ہم تم
جانے یہ پیڑ کس آندھی میں اکھڑ جائے گا

علیم اللہ حالی




صداؤں کے جنگل میں وہ خامشی ہے
کہ میں نے ہر آواز تیری سنی ہے

علیم اللہ حالی




میرا وجود جذب ہوا تیرے جسم میں
اب مجھ کو اپنے جسم کے اندر تلاش کر

علی الدین نوید




آئین جواں مرداں حق گوئی و بیباکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی

علامہ اقبال




آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی

علامہ اقبال