EN हिंदी
ہے غم ہجر نہ اب ذوق طلب کچھ بھی نہیں | شیح شیری
hai gham-e-hijr na ab zauq-e-talab kuchh bhi nahin

غزل

ہے غم ہجر نہ اب ذوق طلب کچھ بھی نہیں

علیم اللہ حالی

;

ہے غم ہجر نہ اب ذوق طلب کچھ بھی نہیں
آج تم لوٹ کے آئے ہو کہ جب کچھ بھی نہیں

تیرے ٹھکرانے کی نسبت سے ہوئے ہیں مشہور
ہم فقیروں کا یہاں نام و نسب کچھ بھی نہیں

آج یہ بار ملاقات اٹھے گا کیوں کر
اس سے ملنا ہے پہ ملنے کا سبب کچھ بھی نہیں

ایک آواز نے توڑی ہے خموشی میری
ڈھونڈھتا ہوں تو پس ساحل شب کچھ بھی نہیں