ہے غم ہجر نہ اب ذوق طلب کچھ بھی نہیں
آج تم لوٹ کے آئے ہو کہ جب کچھ بھی نہیں
تیرے ٹھکرانے کی نسبت سے ہوئے ہیں مشہور
ہم فقیروں کا یہاں نام و نسب کچھ بھی نہیں
آج یہ بار ملاقات اٹھے گا کیوں کر
اس سے ملنا ہے پہ ملنے کا سبب کچھ بھی نہیں
ایک آواز نے توڑی ہے خموشی میری
ڈھونڈھتا ہوں تو پس ساحل شب کچھ بھی نہیں
غزل
ہے غم ہجر نہ اب ذوق طلب کچھ بھی نہیں
علیم اللہ حالی