EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

وہ تو تھا آدمی کی طرح ظہیرؔ
اس کا چہرہ فرشتوں جیسا تھا

علی ظہیر لکھنوی




ذرا پردہ ہٹا دو سامنے سے بجلیاں چمکیں
مرا دل جلوہ گاہ طور بن جائے تو اچھا ہو

علی ظہیر لکھنوی




ادائے عشق ہوں پوری انا کے ساتھ ہوں میں
خود اپنے ساتھ ہوں یعنی خدا کے ساتھ ہوں میں

علی زریون




عصر کے وقت میرے پاس نہ بیٹھ
مجھ پہ اک سانولی کا سایہ ہے

علی زریون




بات بھی کیجیے دیکھ بھی لیجیے
دیکھ بھی لیجیے بات بھی کیجیے

علی زریون




سکوت شام کا حصہ تو مت بنا مجھ کو
میں رنگ ہوں سو کسی موج میں ملا مجھ کو

علی زریون




دل کا چھونا تھا کہ جذبات ہوئے پتھر کے
ایسا لگتا ہے کہ ہم شہر طلسمات میں ہیں

علی زبیر