صداؤں کے جنگل میں وہ خامشی ہے
کہ میں نے ہر آواز تیری سنی ہے
اداسی کے آنگن میں تیری طلب کی
عجب خوشنما اک کلی کھل رہی ہے
نیا رنگ تھا اس کا کل وقت رخصت
کہ جیسے کسی بات پر برہمی ہے
اسے دے کے سب کچھ میں یہ سوچتا ہوں
اسے اور کیا دوں ابھی کچھ کمی ہے
وہی لمحہ لمحہ لہکنا ابھی تک
ابھی تک اسی یاد کی شعلگی ہے
سبیلیں مرے نام کی اور بھی ہیں
مگر پیاس مجھ کو تری بوند کی ہے
ترا نام لوں سامنے سب کے حالیؔ
یہ چاہت مرے دل کو اب کاٹتی ہے
غزل
صداؤں کے جنگل میں وہ خامشی ہے
علیم اللہ حالی