سفر ہے ذہن کا تو کوئی رہنما لے جا
مرا سکوت نہ ہو تو مری صدا لے جا
ہر ایک سمت ہے دشت سکوت کی وسعت
بچا کے یہ روش عرض مدعا لے جا
میں زیر سنگ اسی تیرگی میں جی لوں گا
تو اپنی نرم شعاعوں کا قافلہ لے جا
کچھ اور چاٹ لے صحرائے گمرہی کا نمک
جو آ گیا ہے تو راہوں کا ذائقہ لے جا
بکھر کے چھوٹ نہ جاؤں تری گرفت سے میں
سنبھال کر مجھے اے موج خوش ادا لے جا
غزل
سفر ہے ذہن کا تو کوئی رہنما لے جا
علیم اللہ حالی