اس کا غم اپنی طلب چھین کے لے جائے گا
درد بن کر مری رگ رگ میں اتر آئے گا
ریگزاروں سے پرے کھینچ رہا ہے کوئی
جانے کس دشت میں دریا مجھے بھٹکائے گا
بھول جاؤں گا میں جب اپنی نواؤں کی کسک
اس کی آنکھوں میں لہو میرا اتر آئے گا
کوئی پتھر کا نشاں رکھ کے جدا ہوں ہم تم
جانے یہ پیڑ کس آندھی میں اکھڑ جائے گا
غزل
اس کا غم اپنی طلب چھین کے لے جائے گا
علیم اللہ حالی