EN हिंदी
اس کا غم اپنی طلب چھین کے لے جائے گا | شیح شیری
us ka gham apni talab chhin ke le jaega

غزل

اس کا غم اپنی طلب چھین کے لے جائے گا

علیم اللہ حالی

;

اس کا غم اپنی طلب چھین کے لے جائے گا
درد بن کر مری رگ رگ میں اتر آئے گا

ریگزاروں سے پرے کھینچ رہا ہے کوئی
جانے کس دشت میں دریا مجھے بھٹکائے گا

بھول جاؤں گا میں جب اپنی نواؤں کی کسک
اس کی آنکھوں میں لہو میرا اتر آئے گا

کوئی پتھر کا نشاں رکھ کے جدا ہوں ہم تم
جانے یہ پیڑ کس آندھی میں اکھڑ جائے گا