EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

زمانے کو دوں کیا کہ دامن میں میرے
فقط چند آنسو ہیں وہ بھی کسی کے

علیم مسرور




گھر جل رہا تھا سب کے لبوں پر دھواں سا تھا
کس کس پہ کیا ہوا تھا غضب بولنے نہ پائے

علیم صبا نویدی




لہو کی سوکھی ہوئی جھیل میں اتر کر یوں
تلاش کس کو وہ کرتا رہا مرے اندر

علیم صبا نویدی




میں پھر رہا ہوں شہر میں سڑکوں پہ غالباً
آواز دے کے مجھ کو مرا گھر پکار لے

علیم صبا نویدی




اندھیری شب کا یہ خواب منظر مجھے اجالوں سے بھر رہا ہے
یہ رات اتنی طویل کر دے کہ تا قیامت سحر نہ آئے

علینا عترت




ابھی تو چاک پہ جاری ہے رقص مٹی کا
ابھی کمہار کی نیت بدل بھی سکتی ہے

علینا عترت




ابھی تو چاک پہ جاری ہے رقص مٹی کا
ابھی کمہار کی نیت بدل بھی سکتی ہے

علینا عترت