زمانے کو دوں کیا کہ دامن میں میرے
فقط چند آنسو ہیں وہ بھی کسی کے
علیم مسرور
گھر جل رہا تھا سب کے لبوں پر دھواں سا تھا
کس کس پہ کیا ہوا تھا غضب بولنے نہ پائے
علیم صبا نویدی
لہو کی سوکھی ہوئی جھیل میں اتر کر یوں
تلاش کس کو وہ کرتا رہا مرے اندر
علیم صبا نویدی
میں پھر رہا ہوں شہر میں سڑکوں پہ غالباً
آواز دے کے مجھ کو مرا گھر پکار لے
علیم صبا نویدی
اندھیری شب کا یہ خواب منظر مجھے اجالوں سے بھر رہا ہے
یہ رات اتنی طویل کر دے کہ تا قیامت سحر نہ آئے
علینا عترت
ابھی تو چاک پہ جاری ہے رقص مٹی کا
ابھی کمہار کی نیت بدل بھی سکتی ہے
علینا عترت
ابھی تو چاک پہ جاری ہے رقص مٹی کا
ابھی کمہار کی نیت بدل بھی سکتی ہے
علینا عترت