EN हिंदी
خزاں کی زرد سی رنگت بدل بھی سکتی ہے | شیح شیری
KHizan ki zard si rangat badal bhi sakti hai

غزل

خزاں کی زرد سی رنگت بدل بھی سکتی ہے

علینا عترت

;

خزاں کی زرد سی رنگت بدل بھی سکتی ہے
بہار آنے کی صورت نکل بھی سکتی ہے

جلا کے شمع اب اٹھ اٹھ کے دیکھنا چھوڑو
وہ ذمہ داری سے از خود پگھل بھی سکتی ہے

ہے شرط صبح کے رستے سے ہو کے شام آئے
تو رات اس کو سحر میں بدل بھی سکتی ہے

ذرا سنبھل کے جلانا عقیدتوں کے چراغ
بھڑک نہ جائیں کہ مسند یہ جل بھی سکتی ہے

ابھی تو چاک پہ جاری ہے رقص مٹی کا
ابھی کمہار کی نیت بدل بھی سکتی ہے

یہ آفتاب سے کہہ دو کہ فاصلہ رکھے
تپش سے برف کی دیوار گل بھی سکتی ہے

ترے نہ آنے کی تشریح کچھ ضروری نہیں
کہ تیرے آتے ہی دنیا بدل بھی سکتی ہے

کوئی ضروری نہیں وہ ہی دل کو شاد کرے
علیناؔ آپ طبیعت بہل بھی سکتی ہے