خزاں کی زرد سی رنگت بدل بھی سکتی ہے
بہار آنے کی صورت نکل بھی سکتی ہے
جلا کے شمع اب اٹھ اٹھ کے دیکھنا چھوڑو
وہ ذمہ داری سے از خود پگھل بھی سکتی ہے
ہے شرط صبح کے رستے سے ہو کے شام آئے
تو رات اس کو سحر میں بدل بھی سکتی ہے
ذرا سنبھل کے جلانا عقیدتوں کے چراغ
بھڑک نہ جائیں کہ مسند یہ جل بھی سکتی ہے
ابھی تو چاک پہ جاری ہے رقص مٹی کا
ابھی کمہار کی نیت بدل بھی سکتی ہے
یہ آفتاب سے کہہ دو کہ فاصلہ رکھے
تپش سے برف کی دیوار گل بھی سکتی ہے
ترے نہ آنے کی تشریح کچھ ضروری نہیں
کہ تیرے آتے ہی دنیا بدل بھی سکتی ہے
کوئی ضروری نہیں وہ ہی دل کو شاد کرے
علیناؔ آپ طبیعت بہل بھی سکتی ہے
غزل
خزاں کی زرد سی رنگت بدل بھی سکتی ہے
علینا عترت