EN हिंदी
یہ کس مہم پر چلے تھے ہم جس میں راستے پر خطر نہ آئے | شیح شیری
ye kis muhim par chale the hum jis mein raste pur-KHatar na aae

غزل

یہ کس مہم پر چلے تھے ہم جس میں راستے پر خطر نہ آئے

علینا عترت

;

یہ کس مہم پر چلے تھے ہم جس میں راستے پر خطر نہ آئے
ہمیں نوازا نہ وحشتوں نے ہمیں جنوں کے ہنر نہ آئے

مجھے بہت تیز دھوپ درکار ہے محبت کے اس سفر میں
چمکتے سورج کو سایہ کرنے کوئی گھنیرا شجر نہ آئے

اندھیری شب کا یہ خواب منظر مجھے اجالوں سے بھر رہا ہے
یہ رات اتنی طویل کر دے کہ تا قیامت سحر نہ آئے

جہاں ہوں تیری ہی رونقیں اور ترے نظارے ہی چاروں جانب
اس انجمن کا پتا بتا دے جہاں سے میری خبر نہ آئے

جو لوٹ آئے کوئی سفر سے تو پھر مسافر کہاں ہوا وہ
وہی مسافر ہے جو سفر میں ہے اور کبھی لوٹ کر نہ آئے

وہ آسمانوں میں رہنے والا سنے گا اک دن علیناؔ تیری
صدا کو اپنی بلند رکھ تو دعا میں جب تک اثر نہ آئے