یہ کس مہم پر چلے تھے ہم جس میں راستے پر خطر نہ آئے
ہمیں نوازا نہ وحشتوں نے ہمیں جنوں کے ہنر نہ آئے
مجھے بہت تیز دھوپ درکار ہے محبت کے اس سفر میں
چمکتے سورج کو سایہ کرنے کوئی گھنیرا شجر نہ آئے
اندھیری شب کا یہ خواب منظر مجھے اجالوں سے بھر رہا ہے
یہ رات اتنی طویل کر دے کہ تا قیامت سحر نہ آئے
جہاں ہوں تیری ہی رونقیں اور ترے نظارے ہی چاروں جانب
اس انجمن کا پتا بتا دے جہاں سے میری خبر نہ آئے
جو لوٹ آئے کوئی سفر سے تو پھر مسافر کہاں ہوا وہ
وہی مسافر ہے جو سفر میں ہے اور کبھی لوٹ کر نہ آئے
وہ آسمانوں میں رہنے والا سنے گا اک دن علیناؔ تیری
صدا کو اپنی بلند رکھ تو دعا میں جب تک اثر نہ آئے

غزل
یہ کس مہم پر چلے تھے ہم جس میں راستے پر خطر نہ آئے
علینا عترت