EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

یہ کہنا ہار نہ مانی کبھی اندھیروں سے
بجھے چراغ تو دل کو جلا لیا کہنا

عالم تاب تشنہ




یہ کہنا تم سے بچھڑ کر بکھر گیا تشنہؔ
کہ جیسے ہاتھ سے گر جائے آئینہ کہنا

عالم تاب تشنہ




کرایہ دار بدلنا تو اس کا شیوہ تھا
نکال کر وہ بہت خوش ہوا مکاں سے مجھے

علیم افسر




صدائیں جسم کی دیوار پار کرتی ہیں
کوئی پکار رہا ہے مگر کہاں سے مجھے

علیم افسر




طیور تھے جو گھونسلوں میں پیکروں کے اڑ گئے
اکیلے رہ گئے ہیں اپنے خواب کے مکاں میں ہم

علیم افسر




درد بڑھ کر دوا نہ ہو جائے
زندگی بے مزا نہ ہو جائے

علیم اختر




درد کا پھر مزہ ہے جب اخترؔ
درد خود چارہ ساز ہو جائے

علیم اختر