EN हिंदी
میں جس کا منتظر ہوں وہ منظر پکار لے | شیح شیری
main jis ka muntazir hun wo manzar pukar le

غزل

میں جس کا منتظر ہوں وہ منظر پکار لے

علیم صبا نویدی

;

میں جس کا منتظر ہوں وہ منظر پکار لے
شاید نکل کے جسم سے باہر پکار لے

میں لے رہا ہوں جائزہ ہر ایک لہر کا
کیا جانے کب یہ مجھ کو سمندر پکار لے

صدیوں کے درمیان ہوں میں بھی تو اک صدی
اک بار مجھ کو اپنا سمجھ کر پکار لے

میں پھر رہا ہوں شہر میں سڑکوں پہ غالباً
آواز دے کے مجھ کو مرا گھر پکار لے

شیشے کی طرح وقت کے ہاتھوں میں ہوں ہنوز
کب جانے حادثات کا پتھر پکار لے

وہ لمحہ جس کی ذہن صباؔ کو تلاش ہے
رونے کے اہتمام میں ہنس کر پکار لے