ہر موڑ پہ سفر تھا عجب بولنے نہ پائے
منزل ملی جو درد کی لب بولنے نہ پائے
لکھوا دئیے ہیں اوروں نے دیوار و در پہ نام
اک ہم تھے اپنا نام و نسب بولنے نہ پائے
گھر جل رہا تھا سب کے لبوں پر دھواں سا تھا
کس کس پہ کیا ہوا تھا غضب بولنے نہ پائے
سپنوں کی گرم چادریں اوڑھے ہوئے تھے لوگ
اتری تھی دھوپ شہر میں کب بولنے نہ پائے
ہم بولتے رہے ہیں لب فکر سے صباؔ
کچھ لوگ اپنے آپ سے جب بولنے نہ پائے

غزل
ہر موڑ پہ سفر تھا عجب بولنے نہ پائے
علیم صبا نویدی