سسکتا چیختا احساس تھا مرے اندر
کبھی تو جھانک کے وہ دیکھتا مرے اندر
کسی کے لمس کی خواہش نہ فاصلوں کی کسک
یہ کیسا زہر اچھالا گیا مرے اندر
وہ ایک شخص جسے ڈھونڈنا بھی مشکل تھا
بڑے خلوص سے رہنے لگا مرے اندر
لہو کی سوکھی ہوئی جھیل میں اتر کر یوں
تلاش کس کو وہ کرتا رہا مرے اندر
یہ میرا دل بھی سراپا مزار سا ہے صباؔ
لگاؤ کتبہ کسی نام کا مرے اندر
غزل
سسکتا چیختا احساس تھا مرے اندر
علیم صبا نویدی