EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

عشق میں تہذیب کے ہیں اور ہی کچھ فلسفے
تجھ سے ہو کر ہم خفا خود سے خفا رہنے لگے

عالم خورشید




کبھی کبھی کتنا نقصان اٹھانا پڑتا ہے
ایروں غیروں کا احسان اٹھانا پڑتا ہے

عالم خورشید




کسی کے رستے پہ کیسے نظریں جمائے رکھوں
ابھی تو کرنا مجھے ہے خود انتظار میرا

عالم خورشید




کسی کو ڈھونڈتے ہیں ہم کسی کے پیکر میں
کسی کا چہرہ کسی سے ملاتے رہتے ہیں

عالم خورشید




کوئی صورت بھی نہیں ملتی کسی صورت میں
کوزہ گر کیسا کرشمہ ترے اس چاک میں ہے

عالم خورشید




کچھ رستے مشکل ہی اچھے لگتے ہیں
کچھ رستوں کو ہم آسان نہیں کرتے

عالم خورشید




لکیر کھینچ کے بیٹھی ہے تشنگی مری
بس ایک ضد ہے کہ دریا یہیں پہ آئے گا

عالم خورشید