کس لمحے ہم تیرا دھیان نہیں کرتے
ہاں کوئی عہد و پیمان نہیں کرتے
ہر دم تیری مالا جپتے ہیں لیکن
گلیوں کوچوں میں اعلان نہیں کرتے
اپنی کہانی دل میں چھپا کر رکھتے ہیں
دنیا والوں کو حیران نہیں کرتے
اک کمرے کو بند رکھا ہے برسوں سے
وہاں کسی کو ہم مہمان نہیں کرتے
اک جیسا دکھ مل کر بانٹا کرتے ہیں
اک دوجے پر ہم احسان نہیں کرتے
کچھ رستے مشکل ہی اچھے لگتے ہیں
کچھ رستوں کو ہم آسان نہیں کرتے
رستے میں جو ملتا ہے مل لیتے ہیں
اچھے برے کی اب پہچان نہیں کرتے
جی کرتا ہے بھالو بندر نام رکھیں
کون سی وحشت ہم انسان نہیں کرتے
عالمؔ اس کے پھول تو کب کے سوکھ گئے
کیوں تازہ اپنا گلدان نہیں کرتے
غزل
کس لمحے ہم تیرا دھیان نہیں کرتے
عالم خورشید