EN हिंदी
تھپک تھپک کے جنہیں ہم سلاتے رہتے ہیں | شیح شیری
thapak thapak ke jinhen hum sulate rahte hain

غزل

تھپک تھپک کے جنہیں ہم سلاتے رہتے ہیں

عالم خورشید

;

تھپک تھپک کے جنہیں ہم سلاتے رہتے ہیں
وہ خواب ہم کو ہمیشہ جگاتے رہتے ہیں

امیدیں جاگتی رہتی ہیں سوتی رہتی ہیں
دریچے شمع جلاتے بجھاتے رہتے ہیں

نہ جانے کس کا ہمیں انتظار رہتا ہے
کہ بام و در کو ہمیشہ سجاتے رہتے ہیں

کسی کو ڈھونڈتے ہیں ہم کسی کے پیکر میں
کسی کا چہرہ کسی سے ملاتے رہتے ہیں

وہ نقش خواب مکمل کبھی نہیں ہوتا
تمام عمر جسے ہم بناتے رہتے ہیں

اسی کا عکس ہر اک رنگ میں جھلکتا ہے
وہ ایک درد جسے سب چھپاتے رہتے ہیں

ہمیں خبر ہے کبھی لوٹ کر نہ آئیں گے
گئے دنوں کو مگر ہم بلاتے رہتے ہیں

یہ کھیل صرف تمہیں کھیلتے نہیں عالمؔ
سبھی خلا میں لکیریں بناتے رہتے ہیں