EN हिंदी
جل بجھا ہوں میں مگر سارا جہاں تاک میں ہے | شیح شیری
jal bujha hun main magar sara jahan tak mein hai

غزل

جل بجھا ہوں میں مگر سارا جہاں تاک میں ہے

عالم خورشید

;

جل بجھا ہوں میں مگر سارا جہاں تاک میں ہے
کوئی تاثیر تو موجود مری خاک میں ہے

کھینچتی رہتی ہے ہر لمحہ مجھے اپنی طرف
جانے کیا چیز ہے جو پردۂ افلاک میں ہے

کوئی صورت بھی نہیں ملتی کسی صورت میں
کوزہ گر کیسا کرشمہ ترے اس چاک میں ہے

کیسے ٹھہروں کہ کسی شہر سے ملتا ہی نہیں
ایک نقشہ جو مرے دیدۂ نمناک میں ہے

یہ علاقہ بھی مگر دل ہی کے تابع ٹھہرا
ہم سمجھتے تھے اماں گوشۂ ادراک میں ہے

قتل ہوتے ہیں یہاں نعرۂ اعلان کے ساتھ
وضع داری تو ابھی عالم سفاک میں ہے

کتنی چیزوں کے بھلا نام تجھے گنواؤں
ساری دنیا ہی تو شامل مری املاک میں ہے

رائگاں کوئی بھی شے ہوتی نہیں ہے عالمؔ
غور سے دیکھیے کیا کیا خس و خاشاک میں ہے