کبھی کبھی کتنا نقصان اٹھانا پڑتا ہے
ایروں غیروں کا احسان اٹھانا پڑتا ہے
ٹیڑھے میڑھے رستوں پر بھی خوابوں کا پشتارہ
تیری خاطر میری جان اٹھانا پڑتا ہے
کب سنتا ہے نالہ کوئی شور شرابے میں
مجبوری میں بھی طوفان اٹھانا پڑتا ہے
کیسی ہوائیں چلنے لگی ہیں میرے باغوں میں
پھولوں کو بھی اب سامان اٹھانا پڑتا ہے
گلدستے کی خواہش رکھنے والوں کو اکثر
کوئی خار بھرا گلدان اٹھانا پڑتا ہے
یاں کوئی تفریق نہیں ہے شاہ گدا سب کو
اپنا بوجھ دل نادان اٹھانا پڑتا ہے
یوں مایوس نہیں ہوتے ہیں کوئی نہ کوئی غم
اچھے اچھوں کو ہر آن اٹھانا پڑتا ہے
مکاروں کی اس دنیا میں کبھی کبھی عالمؔ
اچھے لوگوں کو بہتان اٹھانا پڑتا ہے
غزل
کبھی کبھی کتنا نقصان اٹھانا پڑتا ہے
عالم خورشید