EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

خوب اتنا تھا کہ دیوار پکڑ کر نکلا
اس سے ملنے کے لیے صورت سایہ گیا میں

عباس تابش




کچھ تو اپنی گردنیں کج ہیں ہوا کے زور سے
اور کچھ اپنی طبیعت میں اثر مٹی کا ہے

عباس تابش




میں اپنے آپ میں گہرا اتر گیا شاید
مرے سفر سے الگ ہو گئی روانی مری

عباس تابش




میں ہوں اس شہر میں تاخیر سے آیا ہوا شخص
مجھ کو اک اور زمانے میں بڑی دیر لگی

عباس تابش




میں جس سکون سے بیٹھا ہوں اس کنارے پر
سکوں سے لگتا ہے میرا قیام آخری ہے

عباس تابش




مکیں جب نیند کے سائے میں سستانے لگیں تابشؔ
سفر کرتے ہیں بستی کے مکاں آہستہ آہستہ

عباس تابش




مصروف ہیں کچھ اتنے کہ ہم کار محبت
آغاز تو کر لیتے ہیں جاری نہیں رکھتے

عباس تابش