EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

وہ حبس تھا کہ ترستی تھی سانس لینے کو
سو روح تازہ ہوئی جسم سے نکلتے ہی

عباس رضوی




آنکھوں تک آ سکی نہ کبھی آنسوؤں کی لہر
یہ قافلہ بھی نقل مکانی میں کھو گیا

عباس تابش




ابھی تو گھر میں نہ بیٹھیں کہو بزرگوں سے
ابھی تو شہر کے بچے سلام کرتے ہیں

عباس تابش




اگر یونہی مجھے رکھا گیا اکیلے میں
بر آمد اور کوئی اس مکان سے ہوگا

عباس تابش




بیٹھے رہنے سے تو لو دیتے نہیں یہ جسم و جاں
جگنوؤں کی چال چلیے روشنی بن جائیے

عباس تابش




بس ایک موڑ مری زندگی میں آیا تھا
پھر اس کے بعد الجھتی گئی کہانی میری

عباس تابش




بولتا ہوں تو مرے ہونٹ جھلس جاتے ہیں
اس کو یہ بات بتانے میں بڑی دیر لگی

عباس تابش