نقش سارے خاک کے ہیں سب ہنر مٹی کا ہے
اس دیار رنگ و بو میں بست و در مٹی کا ہے
کچھ تو اپنی گردنیں کج ہیں ہوا کے زور سے
اور کچھ اپنی طبیعت میں اثر مٹی کا ہے
چاندنی خنداں ہے اپنے حجرۂ مہتاب پر
اور میں نازاں ہوں اس پر میرا گھر مٹی کا ہے
رحمتیں برسا کے بھی ابر کرم چھٹتا نہیں
ایسے لگتا ہے کہ سایہ چرخ پر مٹی کا ہے
خاک سے اٹھتے نہیں چلتی ہوا کے ساتھ ہم
عجز خاطر پر بہت گہرا اثر مٹی کا ہے
اک نمونہ ہے کسی کی صنعت تمثال کا
یہ جو کھڑکی ہے صدا کی یہ جو گھر مٹی کا ہے
کیوں نہ خوئے خاک سے خستہ رہے میری انا
پا بہ گل ہوں اور خمیر معتبر مٹی کا ہے
غزل
نقش سارے خاک کے ہیں سب ہنر مٹی کا ہے
عباس تابش