ہوائے تیز ترا ایک کام آخری ہے
کہ نخل خشک پہ ماہ تمام آخری ہے
میں جس سکون سے بیٹھا ہوں اس کنارے پر
سکوں سے لگتا ہے میرا قیام آخری ہے
پھر اس کے بعد یہ بازار دل نہیں لگنا
خرید لیجئے صاحب غلام آخری ہے
گزر چلا ہوں کسی کو یقیں دلاتا ہوا
کہ لوح دل پہ رقم ہے جو نام آخری ہے
تبھی تو پیڑ کی آنکھوں میں چاند بھر آیا
کسی نے کہہ دیا ہوگا کہ شام آخری ہے
یہ لگ رہا ہے محبت کے پہلے زینے پر
کہ جس مقام پہ ہوں یہ مقام آخری ہے
کسی نے پھر سے کھڑے کر دیے در و دیوار
خیال تھا کہ مرا انہدام آخری ہے
ہمارے جیسے وہاں کس شمار میں ہوں گے
کہ جس قطار میں مجنوں کا نام آخری ہے
شروع عشق میں ایسی اداسیاں تابشؔ
ہر ایک شام یہ لگتا ہے شام آخری ہے
غزل
ہوائے تیز ترا ایک کام آخری ہے
عباس تابش