EN हिंदी
دہن کھولیں گی اپنی سیپیاں آہستہ آہستہ | شیح شیری
dahan kholengi apni sipiyan aahista aahista

غزل

دہن کھولیں گی اپنی سیپیاں آہستہ آہستہ

عباس تابش

;

دہن کھولیں گی اپنی سیپیاں آہستہ آہستہ
گزر دریا سے اے ابر رواں آہستہ آہستہ

لہو تو عشق کے آغاز ہی میں جلنے لگتا ہے
مگر ہونٹوں تک آتا ہے دھواں آہستہ آہستہ

پلٹنا بھی اگر چاہیں پلٹ کر جا نہیں سکتے
کہاں سے چل کے ہم آئے کہاں آہستہ آہستہ

کہیں لالی بھری تھالی نہ گر جائے سمندر میں
چلا ہے شام کا سورج کہاں آہستہ آہستہ

ابھی اس دھوپ کی چھتری تلے کچھ پھول کھلنے دو
زمیں بدلے گی اپنا آسماں آہستہ آہستہ

کسے اب ٹوٹ کے رونے کی فرصت کار دنیا میں
چلی جاتی ہے اک رسم فغاں آہستہ آہستہ

مرے دل میں کسی حسرت کے پس انداز ہونے تک
نمٹ ہی جائے گا کار جہاں آہستہ آہستہ

مکیں جب نیند کے سائے میں سستانے لگیں تابشؔ
سفر کرتے ہیں بستی کے مکاں آہستہ آہستہ