EN हिंदी
ان کو بلائیں اور وہ نہ آئیں تو کیا کریں | شیح شیری
un ko bulaen aur wo na aaen to kya karen

غزل

ان کو بلائیں اور وہ نہ آئیں تو کیا کریں

اختر شیرانی

;

ان کو بلائیں اور وہ نہ آئیں تو کیا کریں
بے کار جائیں اپنی دعائیں تو کیا کریں

اک زہرہ وش ہے آنکھ کے پردوں میں جلوہ گر
نظروں میں آسماں نہ سمائیں تو کیا کریں

مانا کہ سب کے سامنے ملنے سے ہے حجاب
لیکن وہ خواب میں بھی نہ آئیں تو کیا کریں

ہم لاکھ قسمیں کھائیں نہ ملنے کی سب غلط
وہ دور ہی سے دل کو لبھائیں تو کیا کریں

بد قسمتوں کا یاد نہ کرنے پہ ہے یہ حال
اللہ اگر وہ یاد ہی آئیں تو کیا کریں

ناصح ہماری توبہ میں کچھ شک نہیں مگر
شانہ ہلائیں آ کے گھٹائیں تو کیا کریں

مے خانہ دور راستہ تاریک ہم مریض
منہ پھیر دیں ادھر جو ہوائیں تو کیا کریں

راتوں کے دل میں یاد بسائیں کسی کی ہم
اخترؔ حرم میں وہ نہ بلائیں تو کیا کریں