ندیا نے مجھ سے کہا مت آ میرے پاس
پانی سے بجھتی نہیں انتر من کی پیاس
اختر نظمی
وہ زہر دیتا تو سب کی نگہ میں آ جاتا
سو یہ کیا کہ مجھے وقت پہ دوائیں نہ دیں
اختر نظمی
یار کھسکتی جائے گی مٹھی میں سے ریت
یہ تو ممکن ہی نہیں چڑیا چگے نہ کھیت
اختر نظمی
ذکر وہی آٹھوں پہر وہی کتھا دن رات
بھول سکے تو بھول جا گئے دنوں کی بات
اختر نظمی
جنوں بھی زحمت خرد بھی لعنت ہے زخم دل کی دوا محبت
حریم جاں میں طواف پیہم یہی ہے انداز عاشقانہ
اختر اورینوی
کتنے تاباں تھے وہ لمحات ترے پہلو میں
دو گھڑی میری بھی فردوس منا گزری ہے
اختر اورینوی
میں منتظر ہوں تیری تمنا لئے ہوئے
آ جا فروغ حسن کی دنیا لئے ہوئے
اختر اورینوی