مآل گردش لیل و نہار کچھ بھی نہیں
ہزار نقش ہیں اور آشکار کچھ بھی نہیں
ہر ایک موڑ پہ دنیا کو ہم نے دیکھ لیا
سوائے کشمکش روزگار کچھ بھی نہیں
نشان راہ ملے بھی یہاں تو کیسے ملے
سوائے خاک سر رہ گزار کچھ بھی نہیں
بہت قریب رہی ہے یہ زندگی ہم سے
بہت عزیز سہی اعتبار کچھ بھی نہیں
نہ بن پڑا کہ گریباں کے چاک سی لیتے
شعور ہو کہ جنوں اختیار کچھ بھی نہیں
کھلے جو پھول وہ دست خزاں نے چھین لیے
نصیب دامن فصل بہار کچھ بھی نہیں
زمانہ عشق کے ماروں کو مات کیا دے گا
دلوں کے کھیل میں یہ جیت ہار کچھ بھی نہیں
یہ میرا شہر ہے میں کیسے مان لوں اخترؔ
نہ رسم و راہ نہ وہ کوئے یار کچھ بھی نہیں
غزل
مآل گردش لیل و نہار کچھ بھی نہیں
اختر سعید خان