خبر نہیں تھی کسی کو کہاں کہاں کوئی ہے
ہر اک طرف سے صدا آ رہی تھی یاں کوئی ہے
یہیں کہیں پہ کوئی شہر بس رہا تھا ابھی
تلاش کیجئے اس کا اگر نشاں کوئی ہے
جوار قریۂ گریہ سے آ رہی تھی صدا
مجھے یہاں سے نکالے اگر یہاں کوئی ہے
تلاش کر رہے ہیں قبر سے چھپانے کو
ترے جہان میں ہم سا بھی بے اماں کوئی ہے
کوئی تو ہے جو دنوں کو گھما رہا ہے رضاؔ
پس گماں ہی سہی پر پس جہاں کوئی ہے
غزل
خبر نہیں تھی کسی کو کہاں کہاں کوئی ہے
اختر رضا سلیمی