EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

جانے کس موڑ پہ لے آئی ہمیں تیری طلب
سر پہ سورج بھی نہیں راہ میں سایا بھی نہیں

امید فاضلی




جب سے امیدؔ گیا ہے کوئی!!
لمحے صدیوں کی علامت ٹھہرے

امید فاضلی




مقتل جاں سے کہ زنداں سے کہ گھر سے نکلے
ہم تو خوشبو کی طرح نکلے جدھر سے نکلے

امید فاضلی




سکوت وہ بھی مسلسل سکوت کیا معنی
کہیں یہی ترا انداز گفتگو تو نہیں

امید فاضلی




سکوت وہ بھی مسلسل سکوت کیا معنی
کہیں یہی ترا انداز گفتگو تو نہیں

امید فاضلی




تری تلاش میں جانے کہاں بھٹک جاؤں
سفر میں دشت بھی آتا ہے گھر بھی آتا ہے

امید فاضلی




وہ خواب ہی سہی پیش نظر تو اب بھی ہے
بچھڑنے والا شریک سفر تو اب بھی ہے

امید فاضلی