وہ خواب ہی سہی پیش نظر تو اب بھی ہے
بچھڑنے والا شریک سفر تو اب بھی ہے
زباں بریدہ سہی میں خزاں گزیدہ سہی
ہرا بھرا مرا زخم ہنر تو اب بھی ہے
سنا تھا ہم نے کہ موسم بدل گئے ہیں مگر
زمیں سے فاصلۂ ابر تر تو اب بھی ہے
ہماری در بدری پر نہ جائیے کہ ہمیں
شعور سایۂ دیوار و در تو اب بھی ہے
ہوس کے دور میں ممنون یاد یار ہیں ہم
کہ یاد یار دلوں کی سپر تو اب بھی ہے
کہانیاں ہیں اگر معتبر تو پھر اک شخص
کہانیوں کی طرح معتبر تو اب بھی ہے
ہزار کھینچ لے سورج حصار ابر مگر
کرن کرن پہ گرفت نظر تو اب بھی ہے
سمندروں سے زمینوں کو خوف کیا کہ امید
نمو پزیر زمین ہنر تو اب بھی ہے
مگر یہ کون بدلتی ہوئی رتوں سے کہے
شجر میں سایہ نہیں ہے شجر تو اب بھی ہے
غزل
وہ خواب ہی سہی پیش نظر تو اب بھی ہے
امید فاضلی