EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

وہ حادثے بھی دہر میں ہم پر گزر گئے
جینے کی آرزو میں کئی بار مر گئے

عنوان چشتی




چلا تھا میں تو سمندر کی تشنگی لے کر
ملا یہ کیسا سرابوں کا سلسلہ مجھ کو

عرفی آفاقی




چلا تھا میں تو سمندر کی تشنگی لے کر
ملا یہ کیسا سرابوں کا سلسلہ مجھ کو

عرفی آفاقی




دیوانہ وار ناچیے ہنسئے گلوں کے ساتھ
کانٹے اگر ملیں تو جگر میں چبھوئیے

عرفی آفاقی




معلوم ہے عرفیؔ جو ہے قسمت میں ہماری
صحرا ہی کوئی گریۂ شبنم کو ملے گا

عرفی آفاقی




معلوم ہے عرفیؔ جو ہے قسمت میں ہماری
صحرا ہی کوئی گریۂ شبنم کو ملے گا

عرفی آفاقی




وہ آئے جاتا ہے کب سے پر آ نہیں جاتا
وہی صدائے قدم کا ہے سلسلہ کہ جو تھا

عرفی آفاقی