EN हिंदी
ہائے اک شخص جسے ہم نے بھلایا بھی نہیں | شیح شیری
hae ek shaKHs jise humne bhulaya bhi nahin

غزل

ہائے اک شخص جسے ہم نے بھلایا بھی نہیں

امید فاضلی

;

ہائے اک شخص جسے ہم نے بھلایا بھی نہیں
یاد آنے کی طرح یاد وہ آیا بھی نہیں

جانے کس موڑ پہ لے آئی ہمیں تیری طلب
سر پہ سورج بھی نہیں راہ میں سایا بھی نہیں

وجہ رسوائی احساس ہوا ہے کیا کیا
ہائے وہ لفظ جو لب تک مرے آیا بھی نہیں

اے محبت یہ ستم کیا کہ جدا ہوں خود سے
کوئی ایسا مرے نزدیک تو آیا بھی نہیں

یا ہمیں زلف کے سائے ہی میں نیند آتی تھی
یا میسر کسی دیوار کا سایا بھی نہیں

بارہا دل تری قربت سے دھڑک اٹھا ہے
گو ابھی وقت محبت میں وہ آیا بھی نہیں

آپ اس شخص کو کیا کہیے کہ جس نے امیدؔ
غم دیا غم کو دل آزار بنایا بھی نہیں