مقتل جاں سے کہ زنداں سے کہ گھر سے نکلے
ہم تو خوشبو کی طرح نکلے جدھر سے نکلے
گر قیامت یہ نہیں ہے تو قیامت کیا ہے
شہر جلتا رہا اور لوگ نہ گھر سے نکلے
جانے وہ کون سی منزل تھی محبت کی جہاں
میرے آنسو بھی ترے دیدۂ تر سے نکلے
دربدری کا ہمیں طعنہ نہ دے اے چشم غزال
دیکھ وہ خواب کہ جس کے لیے گھر سے نکلے
میرا رہزن ہوا کیا کیا نہ پشیمان کہ جب
اس کے نامے میرے اسباب سفر سے نکلے
بر سر دوش رہے یا سر نیزہ یارب
حق پرستی کا نہ سودا کبھی سر سے نکلے
غزل
مقتل جاں سے کہ زنداں سے کہ گھر سے نکلے
امید فاضلی