EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

شب وصال میں سننا پڑا فسانۂ غیر
سمجھتے کاش وہ اپنا نہ رازدار مجھے

میر تسکینؔ دہلوی




تسکیںؔ نے نام لے کے ترا وقت مرگ آہ
کیا جانے کیا کہا تھا کسی نے سنا نہیں

میر تسکینؔ دہلوی




تسکیںؔ نے نام لے کے ترا وقت مرگ آہ
کیا جانے کیا کہا تھا کسی نے سنا نہیں

میر تسکینؔ دہلوی




تسکینؔ کروں کیا دل مضطر کا علاج اب
کم بخت کو مر کر بھی تو آرام نہ آیا

میر تسکینؔ دہلوی




ضبط کرتا ہوں ولے اس پر بھی ہے یہ جوش اشک
گر پڑا جو آنکھ سے قطرہ وہ دریا ہو گیا

میر تسکینؔ دہلوی




ضبط کرتا ہوں ولے اس پر بھی ہے یہ جوش اشک
گر پڑا جو آنکھ سے قطرہ وہ دریا ہو گیا

میر تسکینؔ دہلوی




کچھ دن سے عجب بے کلی گھیرے ہے تصور
کچھ دن سے مجھے اپنا ہی گھر گھر نہیں لگتا

تسلیم احمد تصور