بے مہر کہتے ہو اسے جو بے وفا نہیں
سچ ہے کہ بے وفا ہوں میں تم بے وفا نہیں
عقدہ جو دل میں ہے مرے ہونے کا وا نہیں
جب تک کہ آپ کھولتے زلف دوتا نہیں
عیاری دیکھنا جو گلے ملنے کو کہو
کہتا ہے میں تو تم سے ہوا کچھ خفا نہیں
اشکوں کے ساتھ قطرۂ خوں تھا نکل گیا
سینے میں سے تو دل کو کوئی لے گیا نہیں
جلتا ہے سادہ لوحی پہ کیا اپنی جی مرا
دل لے کے اب جو بات وہ کرتا ذرا نہیں
وہ پر خطر ہے وادئ الفت کہ راہ میں
کہتے ہیں خضر ہائے کوئی رہنما نہیں
کرتا ہوں تیری زلف سے دل کا مبادلہ
ہر چند جانتا ہوں یہ سودا برا نہیں
کیسے وہ تلخ تر ہیں مرے شور عشق سے
قسمت سے اپنا چاہنے میں بھی مزا نہیں
جوش جنوں میں سر پہ اڑائیں کہاں سے خاک
دل کیا گیا غبار ہی جی میں رہا نہیں
دیکھوں تو لے ہے جان ملک الموت کس طرح
تم وقت مرگ پاس سے اٹھنا ذرا نہیں
تسکیںؔ نے نام لے کے ترا وقت مرگ آہ
کیا جانے کیا کہا تھا کسی نے سنا نہیں
غزل
بے مہر کہتے ہو اسے جو بے وفا نہیں
میر تسکینؔ دہلوی