مل جائے اماں دنیا میں پل بھر نہیں لگتا
پا جائیں سکوں دائمی مر کر نہیں لگتا
پانی کی طلب لائی کہاں سے یہ کہاں پہ
صحرا سا تو لگتا ہے یہ ساگر نہیں لگتا
اس کوچۂ دلبر میں یہ کیا خاک اڑی ہے
وہ تو نہیں اس کا کوئی ہمسر نہیں لگتا
اک روز نہ مل پائیں گزارا نہیں ہوتا
ہر روز ہی ملتے ہیں یہ مل کر نہیں لگتا
ہر دن کی طرح دن بھی یہ کاٹے سے کٹے گا
یہ شب بھی گزر جائے گی اکثر نہیں لگتا
کچھ دن سے عجب بے کلی گھیرے ہے تصور
کچھ دن سے مجھے اپنا ہی گھر گھر نہیں لگتا

غزل
مل جائے اماں دنیا میں پل بھر نہیں لگتا
تسلیم احمد تصور