اس کو میں ہوئے ہم وہ لب بام نہ آیا
اے جذبۂ دل تو بھی کسی کام نہ آیا
تھا میری طرح غیر کو بھی دعوئ الفت
ناصح تو اسے دینے کو الزام نہ آیا
بے بال و پری کھوتی ہے توقیر اسیری
صیاد یہاں لے کے کبھی دام نہ آیا
اس ناز کے صدقے ہوں ترے میں کہ عدو سے
سو بار سنا ہے پہ مرا نام نہ آیا
کیا جانیے کس طرح دیا تو نے جواب آہ
قاصد کی زباں پر ترا پیغام نہ آیا
تسکینؔ کروں کیا دل مضطر کا علاج اب
کم بخت کو مر کر بھی تو آرام نہ آیا
غزل
اس کو میں ہوئے ہم وہ لب بام نہ آیا
میر تسکینؔ دہلوی