پھر آج بھوک ہمارا شکار کر لے گی
کہ رات ہو گئی دریا میں جال ڈالے ہوئے
طارق قمر
ساتھ ہونے کے یقیں میں بھی مرے ساتھ ہو تم
اور نہ ہونے کے بھی امکان میں رکھا ہے تمہیں
طارق قمر
وہ بھی رسماً یہی پوچھے گا کہ کیسے ہو تم
میں بھی ہنستے ہوئے کہہ دوں گا کہ اچھا ہوں میں
طارق قمر
وہ بھی رسماً یہی پوچھے گا کہ کیسے ہو تم
میں بھی ہنستے ہوئے کہہ دوں گا کہ اچھا ہوں میں
طارق قمر
وہ لوگ بھی تو کناروں پہ آ کے ڈوب گئے
جو کہہ رہے تھے سمندر ہیں سب کھنگالے ہوئے
طارق قمر
یہ کس کی پیاس کے چھینٹے پڑے ہیں پانی پر
یہ کون جبر کا قصہ تمام کر آیا
طارق قمر
یہ کس کی پیاس کے چھینٹے پڑے ہیں پانی پر
یہ کون جبر کا قصہ تمام کر آیا
طارق قمر