EN हिंदी
رہنے والوں کو ترے کوچے کے یہ کیا ہو گیا | شیح شیری
rahne walon ko tere kuche ke ye kya ho gaya

غزل

رہنے والوں کو ترے کوچے کے یہ کیا ہو گیا

میر تسکینؔ دہلوی

;

رہنے والوں کو ترے کوچے کے یہ کیا ہو گیا
میرے آتے ہی یہاں ہنگامہ برپا ہو گیا

تیرا آنا تھا تصور میں تماشا شمع رو
میرے دل پر رات پروانوں کا بلوا ہو گیا

ضبط کرتا ہوں ولے اس پر بھی ہے یہ جوش اشک
گر پڑا جو آنکھ سے قطرہ وہ دریا ہو گیا

اس قدر مانا برا میں نے عدو کا سن کے نام
آخر اس کی ایسی باتوں کا تماشا ہو گیا

کیا غضب ہے التجا پر موت بھی آتی نہیں
تلخ کامی پر ہماری زہر میٹھا ہو گیا

دیکھ یوں خانہ خرابی غیر واں قابض ہوا
جس کے گھر کو ہم یہ سمجھے تھے کہ اپنا ہو گیا