سب خیال اس کے لیے ہیں سب سوال اس کے لیے
رکھ دیا ہم نے حساب ماہ و سال اس کے لیے
اس کی خوشبو کے تعاقب میں نکلا آیا چمن
جھک گئی سوئے زمیں لمحے کی ڈال اس کے لیے
سرو تا خاک گیہ اپنی وفا کا سلسلہ
سر کشیدہ اس کی خاطر پائمال اس کے لیے
کیا مکاں خوردہ خلائق میں چلے اس کا خیال
تنگ ہائے شہر کچھ رستہ نکال اس کے لیے
شاخ تنہائی سے پھر نکلی بہار فصل ذات
اپنی صورت پر ہوئے ہم پھر بحال اس کے لیے
وصل کے بدلے میں کیا داغ ستارہ مانگنا
اس شب بے خانماں سے کر سوال اس کے لیے
غزل
سب خیال اس کے لیے ہیں سب سوال اس کے لیے
اختر حسین جعفری