EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

مری گلی کے مکیں یہ مرے رفیق سفر
یہ لوگ وہ ہیں جو چہرے بدلتے رہتے ہیں

اختر ہوشیارپوری




نہ جانے لوگ ٹھہرتے ہیں وقت شام کہاں
ہمیں تو گھر میں بھی رکنے کا حوصلا نہ ہوا

اختر ہوشیارپوری




نکل کر آ گئے ہیں جنگلوں میں
مکاں کو لا مکاں کرنا پڑا ہے

اختر ہوشیارپوری




پرانے خوابوں سے ریزہ ریزہ بدن ہوا ہے
یہ چاہتا ہوں کہ اب نیا کوئی خواب دیکھوں

اختر ہوشیارپوری




روح کی گہرائی میں پاتا ہوں پیشانی کے زخم
صرف چاہا ہی نہیں میں نے اسے پوجا بھی ہے

اختر ہوشیارپوری




سیلاب امنڈ کے شہر کی گلیوں میں آ گئے
لیکن غریب شہر کا دامن نہ تر ہوا

اختر ہوشیارپوری




سر پہ طوفان بھی ہے سامنے گرداب بھی ہے
میری ہمت کہ وہی کچا گھڑا ہے دیکھو

اختر ہوشیارپوری