مری گلی کے مکیں یہ مرے رفیق سفر
یہ لوگ وہ ہیں جو چہرے بدلتے رہتے ہیں
اختر ہوشیارپوری
نہ جانے لوگ ٹھہرتے ہیں وقت شام کہاں
ہمیں تو گھر میں بھی رکنے کا حوصلا نہ ہوا
اختر ہوشیارپوری
نکل کر آ گئے ہیں جنگلوں میں
مکاں کو لا مکاں کرنا پڑا ہے
اختر ہوشیارپوری
پرانے خوابوں سے ریزہ ریزہ بدن ہوا ہے
یہ چاہتا ہوں کہ اب نیا کوئی خواب دیکھوں
اختر ہوشیارپوری
روح کی گہرائی میں پاتا ہوں پیشانی کے زخم
صرف چاہا ہی نہیں میں نے اسے پوجا بھی ہے
اختر ہوشیارپوری
سیلاب امنڈ کے شہر کی گلیوں میں آ گئے
لیکن غریب شہر کا دامن نہ تر ہوا
اختر ہوشیارپوری
سر پہ طوفان بھی ہے سامنے گرداب بھی ہے
میری ہمت کہ وہی کچا گھڑا ہے دیکھو
اختر ہوشیارپوری