تپش گلزار تک پہنچی لہو دیوار تک آیا
چراغ خود کلامی کا دھواں بازار تک آیا
ہوا کاغذ مصور ایک پیغام زبانی سے
سخن تصویر تک پہنچا ہنر پرکار تک آیا
عبث تاریک رستے کو تہ خورشید جاں رکھا
یہی تار نفس آزار سے پیکار تک آیا
محبت کا بھنور اپنا شکایت کی جہت اپنی
وہ محور دوسرا تھا جو مرے پندار تک آیا
عجب چہرہ سفر کا تھا ہوس کے زرد پانی میں
قدم دلدل سے نکلا تو خط رفتار تک آیا
پھر اس کے بعد طبنور و علم نا معتبر ٹھہرے
کوئی قاصد نہ اس شام شکست آثار تک آیا
غزل
تپش گلزار تک پہنچی لہو دیوار تک آیا
اختر حسین جعفری