EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

جس قدر نیچے اترتا ہوں میں
جھیل بھی گہری ہوئی جاتی ہے

اختر ہوشیارپوری




کب دھوپ چلی شام ڈھلی کس کو خبر ہے
اک عمر سے میں اپنے ہی سائے میں کھڑا ہوں

اختر ہوشیارپوری




کچے مکان جتنے تھے بارش میں بہہ گئے
ورنہ جو میرا دکھ تھا وہ دکھ عمر بھر کا تھا

اختر ہوشیارپوری




خواہشیں خون میں اتری ہیں صحیفوں کی طرح
ان کتابوں میں ترے ہاتھ کی تحریر بھی ہے

اختر ہوشیارپوری




کسے خبر کہ گہر کیسے ہاتھ آتے ہیں
سمندروں سے بھی گہری ہے خامشی میری

اختر ہوشیارپوری




کسی سے مجھ کو گلہ کیا کہ کچھ کہوں اخترؔ
کہ میری ذات ہی خود راستے کا پتھر ہے

اختر ہوشیارپوری




کچھ اتنے ہو گئے مانوس سناٹوں سے ہم اخترؔ
گزرتی ہے گراں اپنی صدا بھی اب تو کانوں پر

اختر ہوشیارپوری