بجا کہ دشمن جاں شہر جاں کے باہر ہے
مگر میں اس کو کہوں کیا جو گھر کے اندر ہے
تمام نقش پرندوں کی طرح اترے ہیں
کہ کاغذوں پہ کھلے پانیوں کا منظر ہے
میں ایک شخص جو کنبوں میں رہ گیا بٹ کر
میں مشت خاک جو تقسیم ہو کے بے گھر ہے
شجر کٹا تو کوئی گھونسلہ کہیں نہ رہا
مگر اک اڑتا پرندہ فضا کا زیور ہے
وہ خوف ہے کہ مکیں اپنے اپنے کمروں میں ہیں
وہ حال ہے کہ بیاباں میں وسعت در ہے
کہیں بھی پیڑ نہیں پھر بھی پتھر آئے ہیں
گلی میں کوئی نہیں پھر بھی شور محشر ہے
میں اس وسیع جزیرے میں واحد انساں ہوں
کہ میرے چاروں طرف دشت کا سمندر ہے
کوئی بھی خواب نہ اونچی فصیل سے اترا
مگر کرن کے گزرنے کو روزن در ہے
تمام روشنیاں بجھ گئی ہیں بستی میں
مگر وہ دیپ کہ جس کا ہواؤں میں گھر ہے
کسی سے مجھ کو گلہ کیا کہ کچھ کہوں اخترؔ
کہ میری ذات ہی خود راستے کا پتھر ہے
غزل
بجا کہ دشمن جاں شہر جاں کے باہر ہے
اختر ہوشیارپوری